کوئی شک نہیں کہ پاکستان معاشی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے انتہائی مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، ہر ادارہ متنازع ہے، سیاسی قیادت بری طرح ایکسپوز ہوچکی ہے، مایوسی کا اندھیرا بڑھ رہا ہے اور امید کی کرنیں ایک ایک کر کے بجھ رہی ہیں، ان حالات میں شعوری طور پر سب سے پہلے جو طبقہ متاثر ہوتا ہے وہ نوجوان ہیں اور یہی طبقہ سب سے پہلے فیصلہ کرتا ہے کہ آگے کیا کرنا ہے، عام طور پر ان کے پاس دو ہی راستے بچ جاتے ہیں۔ پہلا کہ اجڑتی ہوئی بستی کو چھوڑ کر خوشحال بستی کی تلاش میں ہجرت کر لی جائے اور ایک نیا مسکن تلاش کیا جائے یا دوسرا یہ کہ اس اندھیرے کو دور کرنے کے لئے خود ہی شمعیں روشن کی جائیں چاہے اس کا ایندھن اپنا خون ہی کیوں نہ ہو۔

اس وقت ایسا لگتا ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے پہلا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، گزشتہ دنوں ایک خبر پر نظر پڑی کہ بیورو آف امیگریشن کے حالیہ اعداد وشمار کے مطابق اس سال بہتر مستقبل کے لئے ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں حیران کن اور افسوسناک حد تک اضافہ ہوا ہے، 2022 میں 7 لاکھ 65 ہزار پڑھے لکھے نوجوانوں نے پاکستان چھوڑ دیا ہے، ان میں ڈاکٹرز، انجینئرز،آئی ٹی ایکسپرٹس اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان شامل ہیں، کچھ بڑے شعبوں کی بات کریں تو اس سال پاکستان 7 ہزار سے زائد انجینئرز، اڑھائی ہزار ڈاکٹروں ، 1600 نرسوں، 2 ہزار آئی ٹی ماہرین، 6500 اکاؤنٹنٹس، 2600 زرعی ماہرین اور 900 اساتذہ سے محروم ہوگیا۔

ایک مبلغ کی طرح مشکل حالات کے دوران ہجرت کرنے والوں کے بارے میں کوئی فتویٰ جاری نہیں کرنا چاہتا ظاہر ہے ان کے پاس بہتر دلائل اور اس سے بھی بڑھ کر ایسی مجبوریاں ہوں گی جن کی وجہ سے انہیں ملک چھوڑنا پڑا یا پھر انہوں نے شاید بہتر سمجھا کہ پستی میں جاتی بستی میں انارکی اور پریشانی بڑھنے سے پہلے ہی یہاں سے نکل جانا مناسب ہے لیکن میری رائے میں یہ مسائل کا حل نہیں۔ مشکل میں گھڑی بستی میں جوانوں کا کام بستی چھوڑکر جانا نہیں بلکہ امید کی شمعیں جلانا ہوتا ہے۔ سوچیں کہ اگر یونہی جوان بستی کو چھوڑ کر جاتے رہے تو مجبور اور لاچاروں کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا؟۔ اگر گرہن کی اس گہری رات میں سب ہی جگنو چلے گئے تو صبح اور خوابوں کی تعمیل کے انتظار میں بیٹھے اس بستی کے مکینوں کو راستہ کون دیکھائےگا؟۔

یہ درست ہے کہ اس وقت ملک میں معاشی بدحالی، بدانتظامی، عدم انصاف اور نہ جانے درجنوں مسائل کی وجہ سے اندھیرا ہے لیکن اس سب میں قصور وار تو وہ ہیں جو بالواسطہ اور بلاواسطہ اس ملک کے حکمران رہے ہیں یا ہیں۔ تو بجائے اس کے کہ اس ملک کو اس اشرافیہ سے نجات دلائی جائے ہم ملک کیوں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟۔

یہ بھی درست ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے امیدیں اتنی بار اور اس قدر برے طریقے سے توڑی ہیں کہ مایوسی بڑھ گئی ہے لیکن اب یہ فیصلہ تو ہوگیا کہ ان میں سے کوئی بھی ہمارے مسائل حل کرنے کے لئے سنجیدہ نہیں بلکہ سب اقتدار کی ہوس کے پجاری ہیں۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر ایک طرف خزانہ چور ہیں تو دوسری طرف تحائف چور۔ ایک طرف چھوٹے چور تو دوسری طرف بڑے چور کا بیانیہ بن رہا ہے۔ ایک طرف وہ ہیں جو عوام کو مسائل سے نکالنا نہیں چاہتے ہیں اور دوسری طرف وہ ہیں جو مسائل سے نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *